Safiya Chaudhry

صفیہ چودھری

صفیہ چودھری کے تمام مواد

5 غزل (Ghazal)

    خیال و فکر کی تجسیم کر چکی تھی وہاں

    خیال و فکر کی تجسیم کر چکی تھی وہاں میں اس کی سلطنت تسلیم کر چکی تھی وہاں ہوائیں پھول شجر اور چھاؤں اس کی تھی اسی لئے تو میں تعظیم کر چکی تھی وہاں وہ شہر ذات کی ہر اک گلی سے واقف تھا مگر میں راستے تقسیم کر چکی تھی وہاں قفس کھلا تھا مگر فاختہ کہاں جاتی وہ اپنی ہار کو تسلیم کر چکی ...

    مزید پڑھیے

    زخم شدت میں مسکرا رہے تھے

    زخم شدت میں مسکرا رہے تھے حضرت میر یاد آ رہے تھے یہ وہ پاگل ہے جس کا ذکر کیا وہ تعارف مرا کرا رہے تھے کس قدر شوخ ان کا لہجہ تھا ہم تو بس دیکھتے ہی جا رہے تھے کیا کوئی زخم دل پہ کھا بیٹھے تم جو غالب کو گنگنا رہے تھے ہم تو دہلیز سے ہی لوٹ آئے وہ بھی محفل سے اٹھ کے جا رہے تھے کر کے ...

    مزید پڑھیے

    تم مرے شہر میں آتے ہو چلے جاتے ہو

    تم مرے شہر میں آتے ہو چلے جاتے ہو دل پہ اک زخم لگاتے ہو چلے جاتے ہو تم سے مل کر بھی کوئی بات نہیں ہو پاتی صرف اپنی ہی سناتے ہو چلے جاتے ہو میں کہ اسباب سفر باندھ کے آ جاتی ہوں تم نئی راہ دکھاتے ہو چلے جاتے ہو موسم گل کے اترتے ہی مرے آنگن میں ہجر کا گیت سناتے ہو چلے جاتے ہو آج کی ...

    مزید پڑھیے

    خواب آنکھوں میں تم سجاؤ تو

    خواب آنکھوں میں تم سجاؤ تو کاغذی کشتیاں بناؤ تو دن کا سورج ہے کس گمان میں اب لو دئے کی ذرا بڑھاؤ تو ایک تتلی بھٹک رہی ہے یہاں رخ سے آنچل ذرا ہٹاؤ تو ارے صاحب سنو ذرا ٹھہرو میرا دل ساتھ لے کے جاؤ تو رنگ ساڑی کا اور نکھرے گا پھول گیندے کا اک لگاؤ تو آج موسم بھی خوب ٹھہرا ہے ایک ...

    مزید پڑھیے

    آئے ہو تو مرضی سے تم جا سکتے ہو

    آئے ہو تو مرضی سے تم جا سکتے ہو اور چاہو تو مڑ کر واپس آ سکتے ہو دور اداسی کرنی ہو تو شوق سے تم کمرے میں میری تصویر لگا سکتے ہو یہ اندھوں کا کھیل ہے پیارے تم اس میں با آسانی ہر کردار نبھا سکتے ہو آڑی ترچھی چند لکیریں کھینچ کے تم کاغذ پر کوئی شہکار بنا سکتے ہو میں نے جو کچھ کہنا ...

    مزید پڑھیے

5 نظم (Nazm)

    جھوٹ

    ٹھہرو بارش رک جائے تو میں ہی تم کو چھوڑ آؤں گا تب تک کوئی شعر سنا دو یا پھر تار ہنسی کا چھیڑو دیکھو مجھ کو جانے دو جنگل سارا بھیگ گیا ہے اور بادل بھی غصے میں ہے پاگل ہو تم کیسی باتیں کرتی ہو میرے ہوتے بادل برسے یا پھر دھوپ اندھیرا چھائے کون تمہیں کچھ کہہ سکتا ہے

    مزید پڑھیے

    میں عورت ذات ہوں مجھ کو وفا کرنے کی عادت ہے

    میں عورت ذات ہوں مجھ کو وفا کرنے کی عادت ہے کبھی ریتوں رواجوں سے کبھی سوکھے گلابوں سے کبھی کچھ ایسے خوابوں سے کہ جن کی کرچیاں چن کر مری پوریں ہوئیں چھلنی کبھی اس آشیانے سے کہ جس کا ایک اک تنکا صبح سے شام ہونے تک وفا سے میں نے جوڑا ہو کبھی میں صورت حوا کبھی میں عکس مریم ہوں مثال ...

    مزید پڑھیے

    سوال

    ہاتھ دیکھتے ہو تم اور مجھ سے کہتے ہو واہ کیا مقدر ہے اور عمر بھی لمبی بس ذرا خسارہ ہے نام تیرا لے کے میں خود سے پوچھتی ہوں یہ بعد تیرے جانے کے اور کیا خسارہ یہ عمر چاہے لمبی ہو موت کے لیے آخر سانس رکنا لازم ہے

    مزید پڑھیے

    مشورہ

    نمی دے کر جو مٹی کو مسلسل گوندھتے ہو تم بتاؤ کیا بناؤ گے کوئی کوزہ کوئی مورت یا پھر محبوب کی صورت سخنور ہوں کہو تو مشورہ اک دوں یہ گھاٹے کا ہی سودا ہے یہاں مٹی کی مورت کی اگر آنکھیں بناؤ گے تمہیں آنکھیں دکھائے گی تراشو گے زبان اس کی تو ترشی جھیل پاؤ گے اگر جو دل بنایا تو ہزاروں ...

    مزید پڑھیے

    نمو

    تمہیں خبر ہے مرے سرہانے کے بیل بوٹوں میں اک شگوفہ نیا کھلا ہے تمہیں خبر ہے کہ خشک سالی کے زرد موسم میں پھول کھلنا دلیل ہے کہ میں اپنے خوابوں کو رہن رکھ کر تمام شب اک اذیت سے کاٹتی ہوں روش روش کو سنوارتی ہوں مجھے یہ ڈر ہے تمہاری یادوں سے میرا رشتہ نہ ٹوٹ جائے کہیں یہ گلشن نہ سوکھ ...

    مزید پڑھیے