تم مرے شہر میں آتے ہو چلے جاتے ہو
تم مرے شہر میں آتے ہو چلے جاتے ہو
دل پہ اک زخم لگاتے ہو چلے جاتے ہو
تم سے مل کر بھی کوئی بات نہیں ہو پاتی
صرف اپنی ہی سناتے ہو چلے جاتے ہو
میں کہ اسباب سفر باندھ کے آ جاتی ہوں
تم نئی راہ دکھاتے ہو چلے جاتے ہو
موسم گل کے اترتے ہی مرے آنگن میں
ہجر کا گیت سناتے ہو چلے جاتے ہو
آج کی شام ترے نام رہے گی میری
ایسے کچھ جھوٹ سناتے ہو چلے جاتے ہو
روٹھ جاؤں تو فقط ایک تبسم دے کر
سارے شکوے ہی بھلاتے ہو چلے جاتے ہو