Safiya Chaudhry

صفیہ چودھری

صفیہ چودھری کی غزل

    خیال و فکر کی تجسیم کر چکی تھی وہاں

    خیال و فکر کی تجسیم کر چکی تھی وہاں میں اس کی سلطنت تسلیم کر چکی تھی وہاں ہوائیں پھول شجر اور چھاؤں اس کی تھی اسی لئے تو میں تعظیم کر چکی تھی وہاں وہ شہر ذات کی ہر اک گلی سے واقف تھا مگر میں راستے تقسیم کر چکی تھی وہاں قفس کھلا تھا مگر فاختہ کہاں جاتی وہ اپنی ہار کو تسلیم کر چکی ...

    مزید پڑھیے

    زخم شدت میں مسکرا رہے تھے

    زخم شدت میں مسکرا رہے تھے حضرت میر یاد آ رہے تھے یہ وہ پاگل ہے جس کا ذکر کیا وہ تعارف مرا کرا رہے تھے کس قدر شوخ ان کا لہجہ تھا ہم تو بس دیکھتے ہی جا رہے تھے کیا کوئی زخم دل پہ کھا بیٹھے تم جو غالب کو گنگنا رہے تھے ہم تو دہلیز سے ہی لوٹ آئے وہ بھی محفل سے اٹھ کے جا رہے تھے کر کے ...

    مزید پڑھیے

    تم مرے شہر میں آتے ہو چلے جاتے ہو

    تم مرے شہر میں آتے ہو چلے جاتے ہو دل پہ اک زخم لگاتے ہو چلے جاتے ہو تم سے مل کر بھی کوئی بات نہیں ہو پاتی صرف اپنی ہی سناتے ہو چلے جاتے ہو میں کہ اسباب سفر باندھ کے آ جاتی ہوں تم نئی راہ دکھاتے ہو چلے جاتے ہو موسم گل کے اترتے ہی مرے آنگن میں ہجر کا گیت سناتے ہو چلے جاتے ہو آج کی ...

    مزید پڑھیے

    خواب آنکھوں میں تم سجاؤ تو

    خواب آنکھوں میں تم سجاؤ تو کاغذی کشتیاں بناؤ تو دن کا سورج ہے کس گمان میں اب لو دئے کی ذرا بڑھاؤ تو ایک تتلی بھٹک رہی ہے یہاں رخ سے آنچل ذرا ہٹاؤ تو ارے صاحب سنو ذرا ٹھہرو میرا دل ساتھ لے کے جاؤ تو رنگ ساڑی کا اور نکھرے گا پھول گیندے کا اک لگاؤ تو آج موسم بھی خوب ٹھہرا ہے ایک ...

    مزید پڑھیے

    آئے ہو تو مرضی سے تم جا سکتے ہو

    آئے ہو تو مرضی سے تم جا سکتے ہو اور چاہو تو مڑ کر واپس آ سکتے ہو دور اداسی کرنی ہو تو شوق سے تم کمرے میں میری تصویر لگا سکتے ہو یہ اندھوں کا کھیل ہے پیارے تم اس میں با آسانی ہر کردار نبھا سکتے ہو آڑی ترچھی چند لکیریں کھینچ کے تم کاغذ پر کوئی شہکار بنا سکتے ہو میں نے جو کچھ کہنا ...

    مزید پڑھیے