خیال و فکر کی تجسیم کر چکی تھی وہاں

خیال و فکر کی تجسیم کر چکی تھی وہاں
میں اس کی سلطنت تسلیم کر چکی تھی وہاں


ہوائیں پھول شجر اور چھاؤں اس کی تھی
اسی لئے تو میں تعظیم کر چکی تھی وہاں


وہ شہر ذات کی ہر اک گلی سے واقف تھا
مگر میں راستے تقسیم کر چکی تھی وہاں


قفس کھلا تھا مگر فاختہ کہاں جاتی
وہ اپنی ہار کو تسلیم کر چکی تھی وہاں