Safiya Chaudhry

صفیہ چودھری

صفیہ چودھری کی نظم

    جھوٹ

    ٹھہرو بارش رک جائے تو میں ہی تم کو چھوڑ آؤں گا تب تک کوئی شعر سنا دو یا پھر تار ہنسی کا چھیڑو دیکھو مجھ کو جانے دو جنگل سارا بھیگ گیا ہے اور بادل بھی غصے میں ہے پاگل ہو تم کیسی باتیں کرتی ہو میرے ہوتے بادل برسے یا پھر دھوپ اندھیرا چھائے کون تمہیں کچھ کہہ سکتا ہے

    مزید پڑھیے

    میں عورت ذات ہوں مجھ کو وفا کرنے کی عادت ہے

    میں عورت ذات ہوں مجھ کو وفا کرنے کی عادت ہے کبھی ریتوں رواجوں سے کبھی سوکھے گلابوں سے کبھی کچھ ایسے خوابوں سے کہ جن کی کرچیاں چن کر مری پوریں ہوئیں چھلنی کبھی اس آشیانے سے کہ جس کا ایک اک تنکا صبح سے شام ہونے تک وفا سے میں نے جوڑا ہو کبھی میں صورت حوا کبھی میں عکس مریم ہوں مثال ...

    مزید پڑھیے

    سوال

    ہاتھ دیکھتے ہو تم اور مجھ سے کہتے ہو واہ کیا مقدر ہے اور عمر بھی لمبی بس ذرا خسارہ ہے نام تیرا لے کے میں خود سے پوچھتی ہوں یہ بعد تیرے جانے کے اور کیا خسارہ یہ عمر چاہے لمبی ہو موت کے لیے آخر سانس رکنا لازم ہے

    مزید پڑھیے

    مشورہ

    نمی دے کر جو مٹی کو مسلسل گوندھتے ہو تم بتاؤ کیا بناؤ گے کوئی کوزہ کوئی مورت یا پھر محبوب کی صورت سخنور ہوں کہو تو مشورہ اک دوں یہ گھاٹے کا ہی سودا ہے یہاں مٹی کی مورت کی اگر آنکھیں بناؤ گے تمہیں آنکھیں دکھائے گی تراشو گے زبان اس کی تو ترشی جھیل پاؤ گے اگر جو دل بنایا تو ہزاروں ...

    مزید پڑھیے

    نمو

    تمہیں خبر ہے مرے سرہانے کے بیل بوٹوں میں اک شگوفہ نیا کھلا ہے تمہیں خبر ہے کہ خشک سالی کے زرد موسم میں پھول کھلنا دلیل ہے کہ میں اپنے خوابوں کو رہن رکھ کر تمام شب اک اذیت سے کاٹتی ہوں روش روش کو سنوارتی ہوں مجھے یہ ڈر ہے تمہاری یادوں سے میرا رشتہ نہ ٹوٹ جائے کہیں یہ گلشن نہ سوکھ ...

    مزید پڑھیے