غم دل کو بہار بے خزاں کہنا ہی پڑتا ہے
غم دل کو بہار بے خزاں کہنا ہی پڑتا ہے
محبت کو حیات جاوداں کہنا ہی پڑتا ہے
کہاں جاتا ہے رہبر کون ہے اور ہے کہاں منزل
مسافر سے بھی حال کارواں کہنا ہی پڑتا ہے
برا ہو یا بھلا ہو اک آسرا ہے سر چھپانے کا
بہر صورت قفس کو آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے
یہ مانا وہ جفا پرور ہے ظالم ہے ستم گر ہے
مگر پھر بھی اسے آرام جاں کہنا ہی پڑتا ہے
غبار راہ رہ جاتا ہے پیچھے چھوٹ کر لیکن
اسے پھر بھی نشان کارواں کہنا ہی پڑتا ہے
کسی کو جب وہ میرے درد کا قصہ سناتے ہیں
سعیدؔ اس کو حدیث دیگراں کہنا ہی پڑتا ہے