رنج و غم سہے کب تک مجھ سا ناتواں تنہا

رنج و غم سہے کب تک مجھ سا ناتواں تنہا
میں ہی رہ گیا ہوں کیا زیر آسماں تنہا


اس ادا سے کرتے ہیں ذکر حضرت واعظ
جیسے آپ ہی تو ہیں مالک جناں تنہا


ایک ہو کا عالم ہے گل ہے اور نہ غنچے ہیں
کیا کرے گا گلشن میں رہ کے باغباں تنہا


اب وطن کی قوت کا حال پوچھتے کیا ہو
ایک ایک لشکر ہے ایک اک جواں تنہا


آسماں کے تارے ہوں یا زمیں کے ذرے ہوں
میں سناؤں کس کس کو اپنی داستاں تنہا


ان کی یاد ہے دل میں ان کی شکل آنکھوں میں
ان سے چھوٹنے پر بھی میں رہا کہاں تنہا


پیچھے رہ گئے تھک کر اہل کارواں سارے
ہے رواں سوئے منزل میر کارواں تنہا


آشیاں کے جلتے ہی آشیاں بناتا ہوں
میں فقط سمجھتا ہوں برق کی زباں تنہا


اے سعیدؔ قسمت کو یہ بھی دن دکھانا تھا
آج اپنی حالت پر میں ہوں نوحہ خواں تنہا