ملا ہے جبر میں بھی اتنا اختیار مجھے
ملا ہے جبر میں بھی اتنا اختیار مجھے
جو بے قرار ہوا آ گیا قرار مجھے
نہ فصل گل کی خطا ہے نہ بادلوں کا قصور
تری نظر نے بنایا ہے بادہ خوار مجھے
بسا ہے روح کے پردوں میں آج تک وہ سرور
پکار پھر اسی انداز سے پکار مجھے
میں پھر قفس میں ہوں پھر آئی ہے چمن میں بہار
پھر اب کے یاد کرے گی مجھے بہار مجھے
اٹھا رہا ہوں سر طور خاک کے ذرے
ملے ہیں یہ ترے جلوہ کے پردہ دار مجھے
خطا معاف اگر ہو تو ایک بات کہوں
ترے کرم نے بنایا گناہ گار مجھے
کسی کی خاک پہ سجدے کئے جو میں نے سعیدؔ
عطا ہوا ہے دوعالم پہ افتخار مجھے