صبیحہ صدف کی غزل

    سسکتی زندگی کو زندگانی کون دیتا ہے

    سسکتی زندگی کو زندگانی کون دیتا ہے خزاں کے بعد پھر سے رت سہانی کون دیتا ہے مری آنکھوں میں صحراؤں کا منظر دیکھنے والو تہ صحرا یہ دریا کو روانی کون دیتا ہے نہیں مجھ سے کوئی شکوہ گلہ تو سچ بتاؤ پھر مری باتوں کو رنگ بد گمانی کون دیتا ہے شہہ کنعاں کی چاہت میں دوانی مصر کی ملکہ اسی ...

    مزید پڑھیے

    یوں زندگی کو زیر و زبر کر رہے ہیں ہم

    یوں زندگی کو زیر و زبر کر رہے ہیں ہم ہر دن ہی گردشوں میں بسر کر رہے ہیں ہم منزل کی ہے تلاش مگر یہ خبر نہیں کاغذ کی کشتیوں میں سفر کر رہے ہیں ہم اے شب سنبھل کہ تیرے اندھیروں کی خیر ہو خود میں تلاش نجم و قمر کر رہے ہیں ہم کچھ حسرتوں کے قافلے کچھ خواہشوں کے گھر بس خواب خواب ہی میں ...

    مزید پڑھیے

    ہو نظر ایسی کہ بس دل کی نگاہ تک پہنچے

    ہو نظر ایسی کہ بس دل کی نگاہ تک پہنچے دل میں اترے تو کبھی حال تباہ تک پہنچے منزلیں ان کو ملا کرتی ہیں آسانی سے تیرگی چھوڑ کے جو مشعل راہ تک پہنچے اب تلک جیسی بھی گزری ہمیں منظور مگر اب تو بن جائے کچھ ایسی کہ نباہ تک پہنچے جیتنا عشق کی بازی کوئی آسان نہیں عین ممکن ہے کوئی حسن ...

    مزید پڑھیے

    کہاں کہاں تجھے ڈھونڈوں کہاں کہاں دیکھوں

    کہاں کہاں تجھے ڈھونڈوں کہاں کہاں دیکھوں دکھائی کیوں نہیں دیتا ہے میں جہاں دیکھوں فضا میں پھیل رہا ہے اب انتشار بہت نہ جانے کتنے ہی چہرے دھواں دھواں دیکھوں کسی کے سامنے ظاہر نہ ہوں مرے حالات خدایا تجھ کو فقط فقط اپنا رازداں دیکھوں زمیں پہ پھر کہیں وحشت نے سر ابھارا ہے لہو کے ...

    مزید پڑھیے

    میرے اشعار کو معیار پہ تولا جائے

    میرے اشعار کو معیار پہ تولا جائے فن کو رکھ کر کسی فن کار پہ تولا جائے بات ہے تاب نظر کی تو ہٹا کر پردہ شوق دیدار کو دیدار پہ تولا جائے راس آتی ہے انہیں دھوپ جو صحرائی ہیں کیوں انہیں سایۂ دیوار پہ تولا جائے نفرتیں ہم کو سہی تول نہیں سکتی ہیں تولنا ہے تو ہمیں پیار سے تولا ...

    مزید پڑھیے

    گردش وقت سے لڑنا ہے جھگڑنا ہے ابھی

    گردش وقت سے لڑنا ہے جھگڑنا ہے ابھی چڑھتے سورج ہیں ہمیں اور ابھرنا ہے ابھی حوصلے دورئ منزل سے نہ تھک جائیں کہیں کتنی پر خار سی راہوں سے گزرنا ہے ابھی نوک مژگاں پہ اتر آئے ہیں آنسو ایسے ابر باراں کی طرح جیسے برسنا ہے ابھی اس کو خوابوں میں بسا رکھا ہے خوشبو کی طرح اور تعبیر تلک اس ...

    مزید پڑھیے

    ہوش و خرد سے دور دور وہم و گماں کے آس پاس

    ہوش و خرد سے دور دور وہم و گماں کے آس پاس کرتا ہے دل طواف کیوں دشمن جاں کے آس پاس محو خیال یار ہوں مجھ کو غرض کسی سے کیا رہتا ہے اک حصار سا اب جسم و جاں کے آس پاس اک شور خامشی میں ہے اک زندگی ہے موت سی دہشت کا اک ہجوم ہے امن و اماں کے آس پاس گردش ماہ و سال نے ایسا کیا نڈھال بس گھبرا ...

    مزید پڑھیے

    نہ کوئی الجھن نہ دل پریشاں نہ کوئی درد نہاں تھا پہلے

    نہ کوئی الجھن نہ دل پریشاں نہ کوئی درد نہاں تھا پہلے ہمارے ہاتھوں میں تتلیاں تھیں یہ دل بہت شادماں تھا پہلے ہر ایک تتلی پہ بار غم ہے اور عندلیبوں کی آنکھ نم ہے جہاں پہ اب خاک اڑ رہی ہے یہیں کہیں گلستاں تھا پہلے نہ بغض دل میں رہے نہ نفرت بس ایک دوجے سے ہو محبت ہم آؤ تعمیر پھر سے کر ...

    مزید پڑھیے

    ادھوری سی کہانی کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

    ادھوری سی کہانی کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے ہماری زندگانی کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے ہمارے درمیاں کا فاصلہ کم ہو بھی سکتا تھا ذرا سی بد گمانی کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے محبت پھول بھی خوشبو بھی شعلہ بھی ہے شبنم بھی اسی طرز بیانی کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے نگاہوں سے نگاہوں پر عیاں ...

    مزید پڑھیے