ادھوری سی کہانی کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

ادھوری سی کہانی کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
ہماری زندگانی کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے


ہمارے درمیاں کا فاصلہ کم ہو بھی سکتا تھا
ذرا سی بد گمانی کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے


محبت پھول بھی خوشبو بھی شعلہ بھی ہے شبنم بھی
اسی طرز بیانی کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے


نگاہوں سے نگاہوں پر عیاں ہر راز تھا لیکن
نظر کی ترجمانی کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے


صدفؔ آئیں بہاریں پھر پیام رنگ و بو لے کر
مگر اس رت سہانی کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے