ہوش و خرد سے دور دور وہم و گماں کے آس پاس

ہوش و خرد سے دور دور وہم و گماں کے آس پاس
کرتا ہے دل طواف کیوں دشمن جاں کے آس پاس


محو خیال یار ہوں مجھ کو غرض کسی سے کیا
رہتا ہے اک حصار سا اب جسم و جاں کے آس پاس


اک شور خامشی میں ہے اک زندگی ہے موت سی
دہشت کا اک ہجوم ہے امن و اماں کے آس پاس


گردش ماہ و سال نے ایسا کیا نڈھال بس
گھبرا کے اٹھ گئے قدم دار اماں کے آس پاس


تجھ سے ہمارا کچھ نہیں رشتہ تو پھر بتا مجھے
رہتا ہے تو مقیم کیوں ایوان جاں کے آس پاس


یہ عشق کا جنون ہے اس درد میں سکون ہے
پہرا لگا ہے درد کا آہ و فغاں کے آس پاس


بس ہو نگاہ ملتفت جان و جگر بحال ہو
بیٹھے ہیں ملتجی سبھی محفل‌ جاں کے آس پاس


لگتا ہے اے صدفؔ ترے عشق نے پا لیا عروج
ٹھہرا ہوا ہے دل ترا سوز نہاں کے آس پاس