یوں زندگی کو زیر و زبر کر رہے ہیں ہم

یوں زندگی کو زیر و زبر کر رہے ہیں ہم
ہر دن ہی گردشوں میں بسر کر رہے ہیں ہم


منزل کی ہے تلاش مگر یہ خبر نہیں
کاغذ کی کشتیوں میں سفر کر رہے ہیں ہم


اے شب سنبھل کہ تیرے اندھیروں کی خیر ہو
خود میں تلاش نجم و قمر کر رہے ہیں ہم


کچھ حسرتوں کے قافلے کچھ خواہشوں کے گھر
بس خواب خواب ہی میں بسر کر رہے ہیں ہم


خورشید ہم کو تیری تمازت کا ڈر نہیں
اک تخم ناتواں کو شجر کر رہے ہیں ہم


تو رب کائنات ہے پروردگار ہے
سجدے تجھے ہی شام و سحر کر رہے ہیں ہم


ہم نے تلاش عشق میں ہاری ہے زندگی
اہل جنوں کو آج خبر کر رہے ہیں ہم


ہے مقصد حیات کہ منزل ملے صدفؔ
اس کی تلاش شام و سحر کر رہے ہیں ہم