ہو نظر ایسی کہ بس دل کی نگاہ تک پہنچے

ہو نظر ایسی کہ بس دل کی نگاہ تک پہنچے
دل میں اترے تو کبھی حال تباہ تک پہنچے


منزلیں ان کو ملا کرتی ہیں آسانی سے
تیرگی چھوڑ کے جو مشعل راہ تک پہنچے


اب تلک جیسی بھی گزری ہمیں منظور مگر
اب تو بن جائے کچھ ایسی کہ نباہ تک پہنچے


جیتنا عشق کی بازی کوئی آسان نہیں
عین ممکن ہے کوئی حسن گواہ تک پہنچے


تشنگی کو مری اعجاز عطا کر ایسا
زیر لب پیاس بڑھے ایسی کہ آہ تک پہنچے


عشق مسلک میں صدفؔ ایک ہی دستور ہے بس
زخم دل حد سے بڑھے اور کراہ تک پہنچے