میرے اشعار کو معیار پہ تولا جائے

میرے اشعار کو معیار پہ تولا جائے
فن کو رکھ کر کسی فن کار پہ تولا جائے


بات ہے تاب نظر کی تو ہٹا کر پردہ
شوق دیدار کو دیدار پہ تولا جائے


راس آتی ہے انہیں دھوپ جو صحرائی ہیں
کیوں انہیں سایۂ دیوار پہ تولا جائے


نفرتیں ہم کو سہی تول نہیں سکتی ہیں
تولنا ہے تو ہمیں پیار سے تولا جائے


دیکھیے حسن کا معیار نہ گرنے پائے
اس کو میزان خریدار پہ تولا جائے