گردش وقت سے لڑنا ہے جھگڑنا ہے ابھی
گردش وقت سے لڑنا ہے جھگڑنا ہے ابھی
چڑھتے سورج ہیں ہمیں اور ابھرنا ہے ابھی
حوصلے دورئ منزل سے نہ تھک جائیں کہیں
کتنی پر خار سی راہوں سے گزرنا ہے ابھی
نوک مژگاں پہ اتر آئے ہیں آنسو ایسے
ابر باراں کی طرح جیسے برسنا ہے ابھی
اس کو خوابوں میں بسا رکھا ہے خوشبو کی طرح
اور تعبیر تلک اس کو ٹھہرنا ہے ابھی
ٹھوکریں ہم کو سنبھلنے کا سبق دیتی ہے
بارہا تم کو صدفؔ گرنا سنبھلنا ہے ابھی