صباحت عروج کی غزل

    راستے لاکھ سہی کوئی بھی رہبر نہ لگے

    راستے لاکھ سہی کوئی بھی رہبر نہ لگے یہ بھی ممکن ہے کہ در وا ہو مگر در نہ لگے اجنبی لوگ ہیں اس پار کی بستی میں مگر مجھ کو اس پار بھی اپنا تو کوئی گھر نہ لگے ایسے بچھڑا کہ زمانے سے وہ لوٹا ہی نہیں ہے دعا ایسے پرندے کو کبھی پر نہ لگے اب کہ ڈھونڈوں گی ٹھکانہ میں کوئی دشت کے پاس یوں سر ...

    مزید پڑھیے

    مقابلے کے نہ ہم دشمنی کے قابل ہیں

    مقابلے کے نہ ہم دشمنی کے قابل ہیں ذہین لوگ ہیں بس عاشقی کے قابل ہیں جو اپنی مرضی کا سوچیں تم ان کو دفنا دو کہ ایسی لڑکیاں کب رخصتی کے قابل ہیں دکھی نہیں ہیں کہ ہم کیوں ہوئے نظر انداز ہمیں پتا ہے کہ ہم بے رخی کے قابل ہیں ہمیں ڈرایا گیا کب سکھایا ڈٹ جانا ہم ایسے لوگ فقط عاجزی کے ...

    مزید پڑھیے

    ایک تمنا ایسی جو درکار نہیں

    ایک تمنا ایسی جو درکار نہیں ایک پہیلی ہے جو پر اسرار نہیں کہیں پہ گھر خالی ہے کوئی لوگ نہیں کہیں پہ لوگ بہت ہیں پر دیوار نہیں تیرا اس کو چھوڑ کے جینا ایسا ہے ایک کہانی پوری ہے کردار نہیں ملنے کی امید کہیں پر رکھی ہے بوجھ کسی کے ہجر کا ہے جو بار نہیں ایک سہولت حاصل ہو جائے مجھ ...

    مزید پڑھیے

    زندہ آنکھوں میں بے حسی روشن

    زندہ آنکھوں میں بے حسی روشن مردہ چہروں پہ تازگی روشن ان نصیبوں پہ روز ہو ماتم ان کی محفل میں روشنی روشن خود میں اس کو بجھا دیا میں نے پھر ہوا مجھ میں اور بھی روشن بے وفا تھا مگر بچھڑنے پر اس کی آنکھوں میں تھی نمی روشن عادتاً سب سے بات کرتی ہوں اس کی رہتی مگر کمی روشن اس کے ...

    مزید پڑھیے

    دل تعفن سے بھر گیا ہوگا (ردیف .. ی)

    دل تعفن سے بھر گیا ہوگا میں محبت کو گاڑ آئی تھی چند رشتے وہیں پہ ڈوبے تھے میرے گاؤں میں باڑھ آئی تھی آج رسی خرید لائی ہوں دھول پنکھے سے جھاڑ آئی تھی یہ اداسی کہاں سے پھوٹ پڑی میں تو جڑ سے اکھاڑ آئی تھی تم مری زندگی سنوارو گے جس کو میں خود بگاڑ آئی تھی بس مجھے ایک گھر بسانا ...

    مزید پڑھیے

    کون ہے جس کا سارا دکھ ہے

    کون ہے جس کا سارا دکھ ہے دکھ بھی جس کا چارہ دکھ ہے میٹھی باتیں کرتا ہے وہ اور آنکھوں میں کھارا دکھ ہے میں عورت ہوں مجھ سے ملیے میرا مٹی گارا دکھ ہے عشق میں دکھ ہی چارہ سمجھا اور وجہ بیچارہ دکھ ہے دیکھ خدا اب تیرے ہوتے میرا صرف سہارا دکھ ہے ایک کنارہ تم ہو یعنی میرا ایک کنارہ ...

    مزید پڑھیے

    رعایا دے رہی تھی شوق سے بیگار جسموں کی

    رعایا دے رہی تھی شوق سے بیگار جسموں کی یہی تقدیر ہے آقا یہاں نادار جسموں کی گرا ڈالے گی تجھ پہ آسماں جو سرسراہٹ ہے تمہارے پاؤں نیچے رینگتے بیدار جسموں کی مؤرخ گولیوں کے خول گنتے جا رہے تھے اور حکایت لکھ رہے تھے ہم یہاں مسمار جسموں کی محبت صرف کہنے کو تعلق تیل پانی سا ریاضت ...

    مزید پڑھیے

    زیست محو سحاب ہو جیسے

    زیست محو سحاب ہو جیسے مجھ میں تیرا شباب ہو جیسے اس عقیدت سے چپ ہی رہتے ہیں تیری سننا ثواب ہو جیسے رکھ کے سر پہ گلی میں بیچی ہے یہ محبت عذاب ہو جیسے اس کی نظروں میں دیر تک دیکھا میری آنکھوں کا خواب ہو جیسے تیرے در پہ سکوں نہیں ملتا میری نیت خراب ہو جیسے اس کے خط کو سنبھال رکھا ...

    مزید پڑھیے

    جسم سے رہ گزر بناتے ہیں

    جسم سے رہ گزر بناتے ہیں آ محبت کو شر بناتے ہیں صرف دیوار و در بناتے ہیں اور دعویٰ ہے گھر بناتے ہیں خود کو بار دگر بناتے ہیں اور اب سوچ کر بناتے ہیں آج لکڑی کے جوڑ کر تختے ڈوب جانے کا ڈر بناتے ہیں جن کے پاؤں وہ کاٹ لیتے ہیں ان کے جسموں پہ سر بناتے ہیں یہ لٹیرے ہی میرے محسن ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے اس دھوپ سے اماں کے لئے

    ہم نے اس دھوپ سے اماں کے لئے جسم تانے ہیں سائباں کے لئے آنکھ منظر سے آشنا ہی نہیں لفظ ڈھونڈے ہیں پھر زباں کے لئے مجھ پہ پھینکے گئے تھے جو پتھر میں نے رکھے ہیں وہ مکاں کے لئے خود فریبی تو اب نہیں ممکن خواب دیکھے ہیں بس جہاں کے لئے ہم جو بھیجے گئے ہیں دنیا میں ایک طعنہ ہیں آسماں ...

    مزید پڑھیے