زیست محو سحاب ہو جیسے

زیست محو سحاب ہو جیسے
مجھ میں تیرا شباب ہو جیسے


اس عقیدت سے چپ ہی رہتے ہیں
تیری سننا ثواب ہو جیسے


رکھ کے سر پہ گلی میں بیچی ہے
یہ محبت عذاب ہو جیسے


اس کی نظروں میں دیر تک دیکھا
میری آنکھوں کا خواب ہو جیسے


تیرے در پہ سکوں نہیں ملتا
میری نیت خراب ہو جیسے


اس کے خط کو سنبھال رکھا ہے
اک مقدس کتاب ہو جیسے


ایسے رکھا رہا کتابوں میں
حسن اس کا گلاب ہو جیسے


جستجو کی یہ موت ہے صاحب
تیرا ملنا سراب ہو جیسے