رعایا دے رہی تھی شوق سے بیگار جسموں کی

رعایا دے رہی تھی شوق سے بیگار جسموں کی
یہی تقدیر ہے آقا یہاں نادار جسموں کی


گرا ڈالے گی تجھ پہ آسماں جو سرسراہٹ ہے
تمہارے پاؤں نیچے رینگتے بیدار جسموں کی


مؤرخ گولیوں کے خول گنتے جا رہے تھے اور
حکایت لکھ رہے تھے ہم یہاں مسمار جسموں کی


محبت صرف کہنے کو تعلق تیل پانی سا
ریاضت عمر بھر کرتے رہے بیکار جسموں کی


خدا تیرا نظام عدل رب العالمیں تیرا
شریعت تجھ کو دیتی ہے اجازت چار جسموں کی


اسے تو فکر دامن گیر تھی شہہ کے قصیدے کی
کہانی اک طرف رکھی رہی بیمار جسموں کی


بدن چھوڑو صباحت ہو سکے تو روح کو تھامو
کوئی دم گرنے والی ہے یہاں دیوار جسموں کی