جسم سے رہ گزر بناتے ہیں
جسم سے رہ گزر بناتے ہیں
آ محبت کو شر بناتے ہیں
صرف دیوار و در بناتے ہیں
اور دعویٰ ہے گھر بناتے ہیں
خود کو بار دگر بناتے ہیں
اور اب سوچ کر بناتے ہیں
آج لکڑی کے جوڑ کر تختے
ڈوب جانے کا ڈر بناتے ہیں
جن کے پاؤں وہ کاٹ لیتے ہیں
ان کے جسموں پہ سر بناتے ہیں
یہ لٹیرے ہی میرے محسن ہیں
بند گلیوں میں در بناتے ہیں
اس نے اڑنا ہے اور سمتوں میں
آئیے بال و پر بناتے ہیں
ہم نے جانا نہیں کہیں بھی تو
کیوں یہ راہ سفر بناتے ہیں
اب صباحتؔ خدا بنے ہیں وہ
اب وہ شمس و قمر بناتے ہیں