ایک تمنا ایسی جو درکار نہیں
ایک تمنا ایسی جو درکار نہیں
ایک پہیلی ہے جو پر اسرار نہیں
کہیں پہ گھر خالی ہے کوئی لوگ نہیں
کہیں پہ لوگ بہت ہیں پر دیوار نہیں
تیرا اس کو چھوڑ کے جینا ایسا ہے
ایک کہانی پوری ہے کردار نہیں
ملنے کی امید کہیں پر رکھی ہے
بوجھ کسی کے ہجر کا ہے جو بار نہیں
ایک سہولت حاصل ہو جائے مجھ کو
اس کی خاطر لیکن میں تیار نہیں
بھاؤ نہیں معلوم کہ کس کا کتنا ہے
میں بے مول تو ہوں لیکن بے کار نہیں
ہم آہنگ بھی ہوتے ہیں پر دنیا میں
تیرے میرے جیسی کچھ تکرار نہیں
کم ہے لیکن اچھا خاصا لکھا ہے
شعر کا مطلب شعر ہے اب انبار نہیں