مقابلے کے نہ ہم دشمنی کے قابل ہیں

مقابلے کے نہ ہم دشمنی کے قابل ہیں
ذہین لوگ ہیں بس عاشقی کے قابل ہیں


جو اپنی مرضی کا سوچیں تم ان کو دفنا دو
کہ ایسی لڑکیاں کب رخصتی کے قابل ہیں


دکھی نہیں ہیں کہ ہم کیوں ہوئے نظر انداز
ہمیں پتا ہے کہ ہم بے رخی کے قابل ہیں


ہمیں ڈرایا گیا کب سکھایا ڈٹ جانا
ہم ایسے لوگ فقط عاجزی کے قابل ہیں


لڑائی ہم کو وراثت میں دی گئی ہے حضور
ہم اہل جنگ کہاں شاعری کے قابل ہیں


کسی وبا میں خدا ہم کو مبتلا کرے گا
ہم ایسے لوگ کہاں خود کشی کے قابل ہیں