رؤف رحیم کی غزل

    دل کے بہلانے کو دل میں کوئی دلبر رکھنا

    دل کے بہلانے کو دل میں کوئی دلبر رکھنا اور بیگم کی نگاہوں سے بچا کر رکھنا سارے احباب میں بد نام تمہیں کر دے گی اپنے احوال پڑوسن سے چھپا کر رکھنا کام اگر اپنا بنانا ہے تو پھر اس کے لیے ہاتھ میں اپنے کوئی ایک منسٹر رکھنا گر کمانا ہو تو ڈگری پہ بھروسہ نہ کرو ڈگڈگی ہاتھ میں اور ...

    مزید پڑھیے

    کیا جانے کیا لکھا تھا انہیں اضطراب میں

    کیا جانے کیا لکھا تھا انہیں اضطراب میں قاضی کے ساتھ آ گئے خط کے جواب میں لغزش سی ہو گئی تھی مرے انتخاب میں میں کر سکا نہ فرق جو گوبھی گلاب میں گیسو بدوش آئے تھے اک روز خواب میں اس روز سے ہوں آج تلک پیچ و تاب میں رہتے الگ تو عیش بھی کرتے الگ الگ ماں باپ اپنے بن گئے ہڈی کباب ...

    مزید پڑھیے

    جہیزوں کے لیے بڑھتی رہیں گی تلخیاں کب تک

    جہیزوں کے لیے بڑھتی رہیں گی تلخیاں کب تک جلائی جائیں گی سسرال میں یہ لڑکیاں کب تک اڑائیں گے ڈنر میں سارے لیڈر مرغیاں کب تک رعایا کنڈیوں میں ڈھونڈھ کھائے ہڈیاں کب تک گل پژمردہ پر آخر رہیں گی تتلیاں کب تک رچائیں گے جناب شیخ آخر شادیاں کب تک ہے گھر میں ٹیم کرکٹ کی ذرا تو شرم کر ...

    مزید پڑھیے

    جب سے میں صاحب کتاب ہوا

    جب سے میں صاحب کتاب ہوا دوست جل کر مرا کباب ہوا مفت میں میں جو دستیاب ہوا میرا لاکھوں میں انتخاب ہوا ساری غزلیں سنا کے چھوڑا ہے اس سے ملنا تو اک عذاب ہوا پہلے پاگل ہی مجھ کو کہتے تھے شاعروں میں اب انجذاب ہوا پیش رو پی کے خوب لکھتے تھے اس لیے مائل شراب ہوا جسم برقعے میں اور منہ ...

    مزید پڑھیے

    ایک شاعر کا ہوں مہمان خدا خیر کرے

    ایک شاعر کا ہوں مہمان خدا خیر کرے اس کے ہاتھوں میں ہے دیوان خدا خیر کرے میں ہوں لاغر وہ پہلوان خدا خیر کرے میری آفت میں پھنسی جان خدا خیر کرے نیند میں چیختا رہتا ہے وہ چوا چھکا اس پہ کرکٹ کا ہے شیطان خدا خیر کرے مجھ سے بیگم کا تقابل تو فقط اتنا ہے میں دیا ہوں تو وہ طوفان خدا خیر ...

    مزید پڑھیے

    جو بوجھ ہے دل پر اسے کم کرتے رہیں گے

    جو بوجھ ہے دل پر اسے کم کرتے رہیں گے شاعر ہیں تو ہر ناک میں دم کرتے رہیں گے یہ پارٹی اچھی ہے نہ وہ پارٹی اچھی لیڈر کو ضروری ہے ادھم کرتے رہیں گے لے آئیں گے سامان کو کسٹم سے بچا کر اس طرح سے ہم سیر حرم کرتے رہیں گے احباب کو لے ڈوبیں گے احوال سنا کر وابستوں کو وابستۂ غم کرتے رہیں ...

    مزید پڑھیے

    ارمان مرے دل کے نکلنے نہیں دیتے

    ارمان مرے دل کے نکلنے نہیں دیتے وہ دال مرے عشق کی گلنے نہیں دیتے ہر روز کیا کرتے ہیں وہ اک نیا وعدہ عشاق کو ہاتھوں سے نکلنے نہیں دیتے راتوں کو بھی غازہ سے چمکتا ہے وہ چہرہ سورج وہ کبھی حسن کا ڈھلنے نہیں دیتے ہر روز وہ ہر عہد سے پھر جاتے ہیں لیکن پہلی کے مرے وعدے کو ٹلنے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    فساد ہر جگہ برپا ہے کیا کیا جائے

    فساد ہر جگہ برپا ہے کیا کیا جائے مزاج قوم ہی ایسا ہے کیا کیا جائے جو مذہبی تھے مسائل وہ اب سیاسی ہیں یہیں تو دال میں کالا ہے کیا کیا جائے ادھار پیتے تھے غالب تو یہ چراتا ہے چچا سے آگے بھتیجا ہے کیا کیا جائے ہم اپنی ناک کھجانے سے ہو گئے قاصر ہمارے سامنے نکٹا ہے کیا کیا جائے ہے ...

    مزید پڑھیے

    حرام میں وہ نہیں لطف جو حلال میں ہے

    حرام میں وہ نہیں لطف جو حلال میں ہے کہ مرغ و ماہی کی لذت ہماری دال میں ہے فصاد جو بھی کراتا ہے فرقہ‌ وارانہ وہ بھیڑیا ہے مگر آدمی کی کھال میں ہے ہے اختیار خیالوں میں چاہے جو بھی کریں مزا جو ہجر میں ہے وہ کہاں وصال میں ہے مزاح و طنز کا معیار ہے بہت اونچا ہے ذہن و فکر کی پستی جو ...

    مزید پڑھیے

    ہم سے غم خواریاں نہیں اچھی

    ہم سے غم خواریاں نہیں اچھی یہ ادا کاریاں نہیں اچھی کچھ جو بننا ہے چاپلوسی کر دیکھ خودداریاں نہیں اچھی شیخ صاحب سنو ضعیفی میں دل کی بیماریاں نہیں اچھی نام اردو سے ہم کو دو نہ فریب یہ دل آزاریاں نہیں اچھی رات میں ساتھ پی لو واعظ کے دن کی مے خواریاں نہیں اچھی کچی املی وہ پھر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3