جو بوجھ ہے دل پر اسے کم کرتے رہیں گے
جو بوجھ ہے دل پر اسے کم کرتے رہیں گے
شاعر ہیں تو ہر ناک میں دم کرتے رہیں گے
یہ پارٹی اچھی ہے نہ وہ پارٹی اچھی
لیڈر کو ضروری ہے ادھم کرتے رہیں گے
لے آئیں گے سامان کو کسٹم سے بچا کر
اس طرح سے ہم سیر حرم کرتے رہیں گے
احباب کو لے ڈوبیں گے احوال سنا کر
وابستوں کو وابستۂ غم کرتے رہیں گے
یہ روز ملاقات ہی معلوم تھا ہم کو
معشوق جو ہیں آپ ستم کرتے رہیں گے
بیٹے جو چلے جائیں گے سسرال کے گھر کو
ہم باپ ہیں اولاد کا غم کرتے رہیں گے
ہم نام پہ فرقوں کے لڑائیں گے رحیمؔ اب
یوں پرورش دیر و حرم کرتے رہیں گے