جہیزوں کے لیے بڑھتی رہیں گی تلخیاں کب تک
جہیزوں کے لیے بڑھتی رہیں گی تلخیاں کب تک
جلائی جائیں گی سسرال میں یہ لڑکیاں کب تک
اڑائیں گے ڈنر میں سارے لیڈر مرغیاں کب تک
رعایا کنڈیوں میں ڈھونڈھ کھائے ہڈیاں کب تک
گل پژمردہ پر آخر رہیں گی تتلیاں کب تک
رچائیں گے جناب شیخ آخر شادیاں کب تک
ہے گھر میں ٹیم کرکٹ کی ذرا تو شرم کر ظالم
گرانی کے زمانے میں یہ لیمو کیریاں کب تک
تمہارے وعدے وعدے ہیں کبھی پورے نہیں ہوتے
سمندر میں رہیں گی کاغذی یہ کشتیاں کب تک
محافظ ہی جو دشمن ہوں ہمارے مال و عزت کے
بتاؤ کس طرح جھیلے رعایا سختیاں کب تک
رحیمؔ اب شاعری چھوڑو لگاؤ پان کا ڈبہ
بگھاریں گے جناب شیخ چلی شیخیاں کب تک