کیا جانے کیا لکھا تھا انہیں اضطراب میں
کیا جانے کیا لکھا تھا انہیں اضطراب میں
قاضی کے ساتھ آ گئے خط کے جواب میں
لغزش سی ہو گئی تھی مرے انتخاب میں
میں کر سکا نہ فرق جو گوبھی گلاب میں
گیسو بدوش آئے تھے اک روز خواب میں
اس روز سے ہوں آج تلک پیچ و تاب میں
رہتے الگ تو عیش بھی کرتے الگ الگ
ماں باپ اپنے بن گئے ہڈی کباب میں
شاید اسی لیے تھا وہ غرق مطالعہ
تصویر پدمنیؔ کی تھی چسپاں کتاب میں
دیکھا کہ مجھ کو سیٹ منسٹر کی مل گئی
چھچھڑے دکھائی دیتے ہیں بلی کو خواب میں
اتنے سے کام کے لیے کیوں دور جائیے
بکنی پہن کے تیریئے چشم پر آب میں
دل میں ہزار گالیاں دیتا ہوں میں انہیں
اٹھتی نہیں زبان جو ان کی جناب میں
شاید کوئی حسین ہے محفل میں اے رحیمؔ
ہلچل مچی ہوئی ہے جو ہر شیخ و شاب میں