ایک شاعر کا ہوں مہمان خدا خیر کرے

ایک شاعر کا ہوں مہمان خدا خیر کرے
اس کے ہاتھوں میں ہے دیوان خدا خیر کرے


میں ہوں لاغر وہ پہلوان خدا خیر کرے
میری آفت میں پھنسی جان خدا خیر کرے


نیند میں چیختا رہتا ہے وہ چوا چھکا
اس پہ کرکٹ کا ہے شیطان خدا خیر کرے


مجھ سے بیگم کا تقابل تو فقط اتنا ہے
میں دیا ہوں تو وہ طوفان خدا خیر کرے


گھر میں چاول ہے نہ آٹا ہے نہ ادرک لہسن
پھر بھی پکچر کا ہے ارمان خدا خیر کرے


چھیڑ کر آیا تھا جس شوخ حسینہ کو ابھی
بھائی اس کا ہے پہلوان خدا خیر کرے


پیٹ میں آنت نہیں منہ میں کوئی دانت نہیں
اس پہ شادی کا ہے سامان خدا خیر کرے


کتنی غزلوں کو خدا جانے سنائیں گے رحیمؔ
ہیں ترنم میں جو غلطان خدا خیر کرے