جب سے میں صاحب کتاب ہوا

جب سے میں صاحب کتاب ہوا
دوست جل کر مرا کباب ہوا


مفت میں میں جو دستیاب ہوا
میرا لاکھوں میں انتخاب ہوا


ساری غزلیں سنا کے چھوڑا ہے
اس سے ملنا تو اک عذاب ہوا


پہلے پاگل ہی مجھ کو کہتے تھے
شاعروں میں اب انجذاب ہوا


پیش رو پی کے خوب لکھتے تھے
اس لیے مائل شراب ہوا


جسم برقعے میں اور منہ باہر
بے حیا یہ بھی کچھ حجاب ہوا


ڈر کے مارے نکل گئے دیدے
میرے آگے وہ بے نقاب ہوا


اس کو ناکام کر دیا تو نے
اپنے مقصد میں کامیاب ہوا


جب سے رخصت ہوا شباب رحیمؔ
تب سے میں مائل خضاب ہوا