فساد ہر جگہ برپا ہے کیا کیا جائے

فساد ہر جگہ برپا ہے کیا کیا جائے
مزاج قوم ہی ایسا ہے کیا کیا جائے


جو مذہبی تھے مسائل وہ اب سیاسی ہیں
یہیں تو دال میں کالا ہے کیا کیا جائے


ادھار پیتے تھے غالب تو یہ چراتا ہے
چچا سے آگے بھتیجا ہے کیا کیا جائے


ہم اپنی ناک کھجانے سے ہو گئے قاصر
ہمارے سامنے نکٹا ہے کیا کیا جائے


ہے خودکشی ہی اب انجام عشق بازی کا
ہمارے خواب میں ریکھا ہے کیا کیا جائے


عدو کے گھونسے ہیں تو مار پیٹ سالوں کی
یہی تو عشق میں ہوتا ہے کیا کیا جائے


پرانا شہر ہے بدنام قتل و خوں کے لیے
مگر اسی میں تو جینا ہے کیا کیا جائے


ہر ایک شعر ہمارا ہے طنز کا نشتر
ہمارا لہجہ ہی تیکھا ہے کیا کیا جائے


ڈھکا چھپا نہیں فرہاد و قیس کا انجام
رحیمؔ عقل کا اندھا ہے کیا کیا جائے