رؤف رحیم کی غزل

    نام شیطان سے مشہور ہمارا ہوتا

    نام شیطان سے مشہور ہمارا ہوتا اپنے پیچھے بھی اگر کوئی ادارہ ہوتا اوج پر اپنے مقدر کا ستارا ہوتا اک منسٹر کا ہی چمچہ جو ہمارا ہوتا اپنے جینے کا یہی ایک سہارا ہوتا کسی ترپٹ کا سہی کوئی اشارا ہوتا ایک شادی نے ہی سب بال جھڑا ڈالے ہیں یہ عمل کہئے کہ پھر کیسے دوبارہ ہوتا بے پڑھے ...

    مزید پڑھیے

    ہم روز جو لڑتے ہیں تماشا نہیں ہوتا

    ہم روز جو لڑتے ہیں تماشا نہیں ہوتا معمول کا جھگڑا کوئی جھگڑا نہیں ہوتا میں بچے کھلاتا ہوں تو وہ جاتے ہیں پکچر یہ روز کا راتب ہے جو ناغہ نہیں ہوتا لیڈر کی یہ پہچان کہ وہ پھولتا جائے شاعر کی یہ پہچان کہ موٹا نہیں ہوتا ہر ایک ملازم کا ہے یہ حال کہ گھر میں چاول نہیں ہوتے کبھی آٹا ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی بیگم کی دید ہوتی ہے

    جب بھی بیگم کی دید ہوتی ہے ایک زحمت مزید ہوتی ہے مسکراتے ہیں آج کیوں مرشد کوئی لڑکی مرید ہوتی ہے یاد آتے ہیں ہم بھی سالوں کو جب ضرورت شدید ہوتی ہے چاند سورج زمیں سے اگتے ہیں شاعری جب جدید ہوتی ہے سچ ہی کہتے ہیں گھر جنوائی کی زندگی زر خرید ہوتی ہے اب بچائے خدا بلاؤں سے ان سے ...

    مزید پڑھیے

    جینے کا کچھ اصول نہ مرنے کا ڈھنگ ہے

    جینے کا کچھ اصول نہ مرنے کا ڈھنگ ہے ہر چھوٹی چھوٹی بات پہ آپس میں جنگ ہے جب سے سنا ہے فلم دی ڈے آفٹر کا حال کھمبوں سے ہم نے باندھ کے رکھا پلنگ ہے ٹی وی پہ گائے بھینس پکاریں گے روز ہی اردو زباں سے اس میں زیادہ ترنگ ہے آیا ہے کیسا دور سیاست میں دوستو راعی بھی خوش نہیں ہے رعایا بھی ...

    مزید پڑھیے

    قرض لے کر ادا نہیں کرتے

    قرض لے کر ادا نہیں کرتے شاعر اس کے سوا نہیں کرتے ہم کسی کا بھلا نہیں کرتے کام بے فائدہ نہیں کرتے ایک شادی پہ اکتفا کر لو یہ خطا بارہا نہیں کرتے لاکھ وعدہ کریں گے وہ ہم سے کوئی وعدہ وفا نہیں کرتے سوکھے پیڑوں کی طرح یہ لیڈر ہم پہ سایہ ذرا نہیں کرتے آسماں کو زمین لکھتے ہیں لوگ ...

    مزید پڑھیے

    اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

    اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے ہم سے خوش فہموں کا یارو یہ خیال اچھا ہے نہ حرام اچھا ہے یارو نہ حلال اچھا ہے کھا کے پچ جائے جو ہم کو وہی مال اچھا ہے صرف نعروں سے غریبی تو نہیں مٹ سکتی ملک سے سارے غریبوں کو نکال اچھا ہے ساتھ بیگم کے ملا کرتے ہیں دس بیس ہزار مفت کے مالوں میں ...

    مزید پڑھیے

    شاعری میں اک تماشہ اب وہ دکھلانے کو ہے

    شاعری میں اک تماشہ اب وہ دکھلانے کو ہے مار کر میری غزل محفل پہ چھا جانے کو ہے سارے الو کیا کریں گے سوچتا ہوں رات بھر تیرگی کا راج اب دنیا سے مٹ جانے کو ہے بد دعا ہے حسن والوں کی جو ہے آشوب چشم ان کو دیکھا پیار سے اور آنکھ اب آنے کو ہے اب ترنم کی روایت بھی پرانی ہو گئی ایک شاعر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3