ہم ہیں اور نا مراد قسمت ہے
ہم ہیں اور نا مراد قسمت ہے کیا یہی حاصل محبت ہے قید صیاد میں خیال چمن گر قیامت نہیں تو آفت ہے شوق بیتاب حسن مستغنی عشق کی زندگی مصیبت ہے جس کی تفسیر دونوں عالم ہیں وہ فقط ایک لفظ الفت ہے
ہم ہیں اور نا مراد قسمت ہے کیا یہی حاصل محبت ہے قید صیاد میں خیال چمن گر قیامت نہیں تو آفت ہے شوق بیتاب حسن مستغنی عشق کی زندگی مصیبت ہے جس کی تفسیر دونوں عالم ہیں وہ فقط ایک لفظ الفت ہے
آنکھوں آنکھوں میں محبت کا پیام آ ہی گیا مرحبا اذن وداع ننگ و نام آ ہی گیا عافیت کے نام وحشت کا پیام آ ہی گیا لو یہ افسانہ قریب اختتام آ ہی گیا کم سے کم جذب وفا اتنا تو کام آ ہی گیا بے ارادہ ان کے لب پر میرا نام آ ہی گیا شیخ کا سب زہد و تقویٰ آج کام آ ہی گیا جب وہ مینائے رواں ...
نزع میں اب مرے جینے کی دعا کرتے ہیں میری جان آپ پہ قربان یہ کیا کرتے ہیں کیسی دلگیر ہے روداد محبت اے دوست ہم کہا کرتے ہیں اور لوگ سنا کرتے ہیں مے پرستی کوئی بدعت نہیں ہم تو اے شیخ سنت حافظؔ و خیامؔ ادا کرتے ہیں جور محبوب کا ہوتا ہو کہیں ذکر تو ہم بن کے انجان توجہ سے سنا کرتے ...
ہو امتحان وفا حشر تک تو عار نہیں مری جناب میں ناکامیوں کو بار نہیں قبائے ہستیٔ باطل جو تار تار نہیں تو اے دل اہل جنوں میں ترا شمار نہیں ہے شرط جلوہ گہہ ناز میں ادب لیکن نگاہ بس میں نہیں دل پہ اختیار نہیں سنا ہے جب سے سر حشر جلوہ گر ہو گے وہ کس کا دل ہے کہ مرہون انتظار نہیں کبھی ...
کم سے کم تذکرۂ عشق کا عنواں ہو جائے دل ہوا ہے جو پریشاں تو پریشاں ہو جائے دیکھ ایسا نہ ہو اے شوق شہادت کہ کہیں حسن کی ہستئ مستور نمایاں ہو جائے آپ کی شان کرم کے تو یہی شایاں ہے آرزو منفعل تنگئ داماں ہو جائے بال بکھرائے وہ آتے ہیں عیادت کو مری کہیں شیرازۂ ہستی نہ پریشاں ہو جائے
کچھ ایسا بے سر و پا زیست کا نظام رہا کہ جو اصول بنایا وہ ناتمام رہا حریم ناز میں کچھ ایسا اہتمام رہا اٹھے حجاب مگر شوق تشنہ کام رہا وہ کم نصیب سکندر ہوں میں خدا کی پناہ پہنچ کے چشمۂ حیواں پہ تشنہ کام رہا چھپائے آرزوئے دل گیا ترے در تک طواف کعبہ مقصود بے مرام رہا اگر ہو اذن ...
ذکر طوفاں بھی عبث ہے مطمئن ہے دل مرا ناخدا تم ہو تو پھر دریا مرا ساحل مرا رہنمائے زندگی ہے اضطراب دل مرا چل رہا ہے کارواں منزل پس منزل مرا قصۂ منصور ہو یا داستان کوہ کن جو فسانہ دیکھیے اک باب ہے شامل مرا مل رہا ہے زندگی کو آج عنواں سہی منفعل کیوں ہو نصیب دشمناں قاتل مرا چند ...
جب میسر ہے کہ شغل بادہ و مینا کریں کیوں غم امروز کیوں اندیشۂ فردا کریں قابل تعزیر ہوں ہم بھی اگر شکوہ کریں ان کو مشق جور کرنا ہے بہت اچھا کریں دل یہ کہتا ہے انہیں آٹھوں پہر دیکھا کریں آہ اے احساس نام و ننگ تجھ کو کیا کریں حسن ہے سرگرم جلوہ عشق ہے بے تاب شوق اب بتائے کوئی ارباب ...
شمع میں سوز کی وہ خو ہے نہ پروانے میں جو ہے اے برق شمائل ترے دیوانے میں لطف تھا ذکر دل سوختہ دہرانے میں سوز ہے ساز کہاں طور کے افسانے میں تھا جو اس چشم فسوں ساز کے پیمانے میں کیف وہ ڈھونڈئیے اب کون ہے میخانے میں واسطہ دست نگاریں کا تجھے اے قاتل ایک سرخی کی کمی ہے مرے افسانے ...
بیٹھا ہوں دل میں یار کو مہماں کئے ہوئے ذرے کو رشک مہر درخشاں کئے ہوئے تیری نگاہ لطف کے شایاں کئے ہوئے لایا ہوں دل کو رشک گلستاں کئے ہوئے اک میں کہ جمع اپنے ہی دل کو نہ کر سکا اک تم کہ جتنے دل بھی پریشاں کئے ہوئے یوں کہہ رہا ہوں گریۂ فرقت کا ماجرا ہر اشک ہے تہیۂ طوفاں کئے ...