کچھ ایسا بے سر و پا زیست کا نظام رہا

کچھ ایسا بے سر و پا زیست کا نظام رہا
کہ جو اصول بنایا وہ ناتمام رہا


حریم ناز میں کچھ ایسا اہتمام رہا
اٹھے حجاب مگر شوق تشنہ کام رہا


وہ کم نصیب سکندر ہوں میں خدا کی پناہ
پہنچ کے چشمۂ حیواں پہ تشنہ کام رہا


چھپائے آرزوئے دل گیا ترے در تک
طواف کعبہ مقصود بے مرام رہا


اگر ہو اذن تغافل تو آپ غور کریں
نہ جانے کیوں مجھے آج انتظار شام رہا


حضور عشق سزاوار صد ملامت ہے
وہ نا مراد جو الفت میں شاد کام رہا


مری سرشت ہی کچھ خوگر اسیری تھی
ملی قفس سے رہائی اسیر دام رہا


رشیدؔ غیرت رندی ہے مانع توبہ
تمام عمر تو جام و سبو سے کام رہا