ہو امتحان وفا حشر تک تو عار نہیں

ہو امتحان وفا حشر تک تو عار نہیں
مری جناب میں ناکامیوں کو بار نہیں


قبائے ہستیٔ باطل جو تار تار نہیں
تو اے دل اہل جنوں میں ترا شمار نہیں


ہے شرط جلوہ گہہ ناز میں ادب لیکن
نگاہ بس میں نہیں دل پہ اختیار نہیں


سنا ہے جب سے سر حشر جلوہ گر ہو گے
وہ کس کا دل ہے کہ مرہون انتظار نہیں


کبھی کرم ہے صبا کا کبھی عنایت برق
قفس نصیب کو زنداں میں بھی قرار نہیں


نہ باغباں کا گلہ ہے نہ شکوۂ صیاد
سمجھ لیا ہے کہ تقدیر میں بہار نہیں


ملی ہمیں وہ سلامت روی محبت میں
کہ اب کسی کی عداوت بھی ناگوار نہیں


مآل آبلہ پائی عیاں ہے اس سے رشید
کہ تشنہ میرے لہو کی زبان خار نہیں