کم سے کم تذکرۂ عشق کا عنواں ہو جائے
کم سے کم تذکرۂ عشق کا عنواں ہو جائے
دل ہوا ہے جو پریشاں تو پریشاں ہو جائے
دیکھ ایسا نہ ہو اے شوق شہادت کہ کہیں
حسن کی ہستئ مستور نمایاں ہو جائے
آپ کی شان کرم کے تو یہی شایاں ہے
آرزو منفعل تنگئ داماں ہو جائے
بال بکھرائے وہ آتے ہیں عیادت کو مری
کہیں شیرازۂ ہستی نہ پریشاں ہو جائے