Rakhshanda Naved

رخشندہ نوید

رخشندہ نوید کی غزل

    اس لمحۂ ویران میں چپ چاند نظر چپ

    اس لمحۂ ویران میں چپ چاند نظر چپ اک رات کی حیرت میں گرفتار نگر چپ کس قتل میں مطلوب ہوئے شہر کو ہم لوگ کیوں کرنے لگے اپنی گزر اور بسر چپ کچھ اور ابھی بول ابھی اور بھی کچھ کہہ کیوں لب پہ وہی مہر صفت بار دگر چپ میں ساحل دریا سے کھڑی دیکھ رہی ہوں ساکن ہے ہر اک لہر تو ہر ایک بھنور ...

    مزید پڑھیے

    ڈھونڈھنا ملنا بچھڑنا کہیں کھونا رک جائے

    ڈھونڈھنا ملنا بچھڑنا کہیں کھونا رک جائے یہ جو ہوتا ہے طبیعت میں یہ ہونا رک جائے غم کی بد روح سے کچھ اور توقع مت رکھ رات کے پچھلے پہر اوس کا یہ رونا رک جائے ہر مہینے کی طرح پھر سے بڑھے اخراجات پھر کہیں ننھے سے بچہ کا کھلونا رک جائے اس لیے دبلے ہوئے جاتے ہیں سب اہل عشق کھانا پینا ...

    مزید پڑھیے

    اور ابھی وہ بات نہیں تھی

    اور ابھی وہ بات نہیں تھی پورے چاند کی رات نہیں تھی فیصلہ اب آسان ہوا ہے شامل میری ذات نہیں تھی جیت کے بھی میں ہار گئی ہوں اس کی مات بھی مات نہیں تھی اندر بھی اک حبس کا موسم باہر بھی برسات نہیں تھی کیوں پالا یہ دکھ رخشندہؔ دل کی جب اوقات نہیں تھی

    مزید پڑھیے

    گھٹی گھٹی خاک میں دبی اس صدا سے آگے

    گھٹی گھٹی خاک میں دبی اس صدا سے آگے ہے اور صحرائے مرگ کرب و بلا سے آگے مرے مسیحا تلاش کر دھڑکنوں کے جگنو یہاں وہاں زندگی پڑی ہے فنا سے آگے نگل گئی ہنستے کھیلتوں کو پلک جھپکتے ستم گری میں زمیں بڑھی انتہا سے آگے انہیں کی سانسوں کو لے اڑے آندھیوں کے ریلے جو اونچا اڑنے کی چاہ میں ...

    مزید پڑھیے

    غمی خوشی بانٹی تھی اپنے بستر سے

    غمی خوشی بانٹی تھی اپنے بستر سے میری ہم سفری تھی اپنے بستر سے چار طرف ریشم تھا اس میں الجھ گئی مشکل سے پھر بچی تھی اپنے بستر سے سلوٹ سلوٹ تارے کرتے ہوئے شمار سحر مثال اتری تھی اپنے بستر سے نیندیں پلک میں بھر کر روئی کی مانند ادھر ادھر بھٹکی تھی اپنے بستر سے جنگل کی جانب پھر ...

    مزید پڑھیے

    کہانیاں نہ ختم ہوں گی اختتامیوں کے ساتھ

    کہانیاں نہ ختم ہوں گی اختتامیوں کے ساتھ مجھے قبول کر مری تمام خامیوں کے ساتھ تو اپنے حسن و ناز کے غرور میں ہی جل بجھی وہ لوٹ لے گا بزم اپنی خوش کلامیوں کے ساتھ یہ کیا ہوا کہ اس کے باوجود بازی ہار دی کھڑی تھی میں تو سر اٹھائے اپنے حامیوں کے ساتھ

    مزید پڑھیے

    کیسے نکلوں خمار سے باہر

    کیسے نکلوں خمار سے باہر بازوؤں کے حصار سے باہر درد نکلا ہے صبر کی حد سے اشک نکلے قطار سے باہر چند لمحوں کی مختصر قربت اور یادیں شمار سے باہر اس لیے اس کی یاد میں گم ہوں بھولنا اختیار سے باہر اور جائیں کہاں مہ و انجم روز و شب کے مدار سے باہر طفل دل پھر اداس بیٹھا ہے کوئی لے ...

    مزید پڑھیے

    جواں رت تھی پھر افسانے بھی نکلے

    جواں رت تھی پھر افسانے بھی نکلے مرے منہ پر بہت دانے بھی نکلے سبھی آئے مری جانب سنبھل کر مگر کچھ تم سے دیوانے بھی نکلے ادھورے شعر سے کچھ خواب اپنے ہمیں نیندوں سے بھٹکانے بھی نکلے تمہارے ساتھ رستے باغ جیسے تمہارے بعد ویرانے بھی نکلے وہ جب ٹھنڈا ہوا غربت کے ہاتھوں اسی مٹھی سے ...

    مزید پڑھیے

    مانگ لینا صلہ تو جائز ہے

    مانگ لینا صلہ تو جائز ہے مل گیا نہ ملا تو جائز ہے دوستوں سے شکایتیں کیسی دوستوں سے گلہ تو جائز ہے ہم سے ملنا اگر نہیں ممکن بات کا سلسلہ تو جائز ہے اس کو اثبات مانا جائے گا بھول کر سر ہلا تو جائز ہے کب ہوا کا گزر ہوا دل سے پھول پھر بھی کھلا تو جائز ہے

    مزید پڑھیے

    حرف تا حرف افتاد کی شاعری

    حرف تا حرف افتاد کی شاعری دل کی اک شہر برباد کی شاعری کب سمندر کناروں کا محتاج ہے کب دل موج آزاد کی شاعری بانسری کی مدھر لے سے باہر نکل سن ذرا روح ناشاد کی شاعری ترک ہوتی نہیں ایسی کچھ عادتیں فکر داد ہوس داد کی شاعری توبہ توبہ کہ رکھی ہے فٹ پاتھ پر میرؔ صاحب سے استاد کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2