جواں رت تھی پھر افسانے بھی نکلے
جواں رت تھی پھر افسانے بھی نکلے
مرے منہ پر بہت دانے بھی نکلے
سبھی آئے مری جانب سنبھل کر
مگر کچھ تم سے دیوانے بھی نکلے
ادھورے شعر سے کچھ خواب اپنے
ہمیں نیندوں سے بھٹکانے بھی نکلے
تمہارے ساتھ رستے باغ جیسے
تمہارے بعد ویرانے بھی نکلے
وہ جب ٹھنڈا ہوا غربت کے ہاتھوں
اسی مٹھی سے چار آنے بھی نکلے
وہ سولی پر بھی اپنے آپ لٹکے
نکو کاروں پہ جرمانے بھی نکلے