Rakhshanda Naved

رخشندہ نوید

رخشندہ نوید کی غزل

    سمندر بھی ہوا عبرت نشاں پانی ہی پانی

    سمندر بھی ہوا عبرت نشاں پانی ہی پانی مرے چاروں طرف ہے الاماں پانی ہی پانی عجب دنیا ہے اس کو فکر دنیا ہی نہیں ہے فقط دیکھا ہے تو گریہ کناں پانی ہی پانی نگاہ نم سے اس نسبت بھی رشتہ جوڑے رکھا کہ میں ہوں ایک صحرا اور وہاں پانی ہی پانی تمہارے ساتھ جس دم تن بدن بارش میں بھیگا لہو بن ...

    مزید پڑھیے

    جیسے جی چاہے مرا حوصلہ پرکھا جائے

    جیسے جی چاہے مرا حوصلہ پرکھا جائے دور اک دشت میں تنہا کہیں پھینکا جائے توڑنا اور کئی بار بنانا مجھ کو دوستو اتنا بھی آسان نہ سمجھا جائے رکھا جائے مجھے جنت سے کسی منظر میں پاؤں کے نیچے ہی جنت کو نہ رکھا جائے دیکھنے والے حسیں آنکھ بہت دیکھتے ہیں جو پس چشم ہے غم اس کو بھی دیکھا ...

    مزید پڑھیے

    وہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی

    وہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی انہیں کے نام دل کی ڈائری کرنی پڑے گی وہ ان کو جانتے ہیں اور ان کے حال دل کو سو ان کے دوستوں سے دوستی کرنی پڑے گی ہمارے درمیاں یہ دکھ ہی قدر مشترک ہیں سو ہم کو اجتماعی خودکشی کرنی پڑے گی بدن کو روح سے محروم کر ڈالا گیا ہے بسر اس طور ہی اب زندگی ...

    مزید پڑھیے

    آسماں اس کے لیے اور زمیں اس کے ساتھ

    آسماں اس کے لیے اور زمیں اس کے ساتھ شہر کا چل دیا ہر ایک حسیں اس کے ساتھ بس یہی سوچ کے میں بھوکی رہی کتنے دن ہوگی اک دعوت شیراز کہیں اس کے ساتھ ناؤ کو چار طرف گھیرے کھڑے تھے گرداب یہ مگر فیصلہ میرا تھا نہیں اس کے ساتھ کیسے میں خالی کرا سکتی تھی یہ دل اپنا گھر کے دیوار و در و عکس و ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2