اور ابھی وہ بات نہیں تھی

اور ابھی وہ بات نہیں تھی
پورے چاند کی رات نہیں تھی


فیصلہ اب آسان ہوا ہے
شامل میری ذات نہیں تھی


جیت کے بھی میں ہار گئی ہوں
اس کی مات بھی مات نہیں تھی


اندر بھی اک حبس کا موسم
باہر بھی برسات نہیں تھی


کیوں پالا یہ دکھ رخشندہؔ
دل کی جب اوقات نہیں تھی