گھٹی گھٹی خاک میں دبی اس صدا سے آگے
گھٹی گھٹی خاک میں دبی اس صدا سے آگے
ہے اور صحرائے مرگ کرب و بلا سے آگے
مرے مسیحا تلاش کر دھڑکنوں کے جگنو
یہاں وہاں زندگی پڑی ہے فنا سے آگے
نگل گئی ہنستے کھیلتوں کو پلک جھپکتے
ستم گری میں زمیں بڑھی انتہا سے آگے
انہیں کی سانسوں کو لے اڑے آندھیوں کے ریلے
جو اونچا اڑنے کی چاہ میں تھے ہوا سے آگے
شریک غم سب ہوئے ہیں لیکن یہ وقت وہ ہے
کہ جس میں درکار اور کچھ ہے دعا سے آگے
میں چھت تلے پیٹتی ہوں رخشندہؔ اپنے سر کو
کہ ہم نفس ننگے سر کھڑے ہیں ردا سے آگے