Rajeev Riyaz Pratapgarhi

راجیو ریاض پرتاپ گڑھی

راجیو ریاض پرتاپ گڑھی کی غزل

    تباہی درد اذیت کا کارواں لے کر

    تباہی درد اذیت کا کارواں لے کر کہاں سے آئیں ہوائیں دھواں دھواں لے کر بدن کا کیا ہے کھلونا ہے چاہے جو کھیلے چلا گیا ہے کوئی اپنے ساتھ جاں لے کر پلٹ کے آیا تو قدموں تلے زمین نہ تھی مرے خدا میں کہاں جاؤں آسماں لے کر تجھے پتہ ہی نہیں تو جہان ہے میرا میں کیا کروں گا ترے بعد یہ جہاں لے ...

    مزید پڑھیے

    پلکوں میں ہی اپنا اشک سکھانا ہوتا ہے

    پلکوں میں ہی اپنا اشک سکھانا ہوتا ہے کچھ خوابوں کو زندہ ہی دفنانا ہوتا ہے جانا پڑتا ہے کس کس کے در مجبوری میں لیکن وہ جانا جیسے مر جانا ہوتا ہے ٹھیک اسی پل مجھ میں چیخا کرتا ہے کوئی جس دم میری نیندوں کو گہرانا ہوتا ہے قد چھوٹا کر دیتی ہے بس پانے کی خواہش جیون میں کچھ چیزوں کو ...

    مزید پڑھیے

    اجنبی تھا وہ جس کو کھویا تھا

    اجنبی تھا وہ جس کو کھویا تھا پھر بھی میں ساری رات رویا تھا عمر بھر دور ہو نہ پائی تھکن میں نے پلکوں پہ اشک ڈھویا تھا ہو گئی ہے زمیں وہ اب بنجر جس جگہ اک فقیر رویا تھا داغ پانی کے لگ گئے تھے کئی میں نے ان کو لہو سے دھویا تھا لہریں روئیں لپٹ لپٹ کے بہت مجھ کو دریا نے جب ڈبویا تھا

    مزید پڑھیے

    پشت ہا پشت تجھے خون پلایا لالہ

    پشت ہا پشت تجھے خون پلایا لالہ پھر بھی رہتا ہے ترا سود بقایا لالہ تو ہی پوجا بھی بہت کرتا ہے مندر مندر اور تو نے ہی غریبوں کو ستایا لالہ ہائے بھی تجھ کو غریبوں کی نہیں لگتی ہے کیسا پرساد شوالے میں چڑھایا لالہ دروپدی کو تو بچایا تھا کنہیا تو نے کیوں نہ ملاح کی بیٹی کو بچایا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ زیادہ ہی اگر رخت سفر رہتا ہے

    کچھ زیادہ ہی اگر رخت سفر رہتا ہے ہر گھڑی راہ میں مشکل میں بشر رہتا ہے اس لئے آپ کو پانے سے میں کرتا ہوں گریز قیمتی چیز کے کھو جانے کا ڈر رہتا ہے اس کی سانسوں سے مہکتی ہیں کئی دن سانسیں اس کو چھونے کا کئی روز اثر رہتا ہے کیسا جادو ہے کھلی آنکھوں سے دکھتا ہی نہیں بند کرتا ہوں تو وہ ...

    مزید پڑھیے

    کسے غرض ہے کہ اب دھوپ سے بچائے مجھے

    کسے غرض ہے کہ اب دھوپ سے بچائے مجھے ہر ایک موڑ پہ بابو جی یاد آئے مجھے یہ کون لوگ ہیں جو رکھ دئے بدن گروی یہ کون لوگ ہیں لگتے ہیں اپنے سائے مجھے اب اس کے آگے بنا راستوں کے جانا ہے اب اس کے آگے کوئی راستہ بتائے مجھے مجھے سلگتے ہوئے ہو گئی ہے اک مدت کہیں سے کوئی ہوا آئے اور جلائے ...

    مزید پڑھیے

    مل کے قطرے بھی سمندر سے سمندر ہو گئے

    مل کے قطرے بھی سمندر سے سمندر ہو گئے کتنے پستہ قد مقدر کے سکندر ہو گئے چھوڑ کر سب لہلہاتے کھیت پاگل پن میں ہم شہر آئے اور یہاں بنیوں کے نوکر ہو گئے آج تک ہیں منتظر جو کر نہ پائے دستیاب قدر اس نے کی نہیں جس کو میسر ہو گئے چاہتے تھے درد ہم کرنا زمانے سے بیاں بس اسی کوشش میں جانے کب ...

    مزید پڑھیے

    ہے نہیں میرا جتانا بھی مجھے چاہتا ہے

    ہے نہیں میرا جتانا بھی مجھے چاہتا ہے اور وہ شانہ بہ شانہ بھی مجھے چاہتا ہے تھام کر انگلی سکھایا بھی اسی نے چلنا اب وہی شخص مٹانا بھی مجھے چاہتا ہے بس ترا ہو کے رہوں گا میں یہ کیسے کہہ دوں بات یہ ہے کہ زمانہ بھی مجھے چاہتا ہے پہلے کہتا تھا کہ ہوں اس کے بدن کا گہنا ہاں مگر اب وہ ...

    مزید پڑھیے

    بیاج میں کھیت نہ زیور نہ وہ دھن چاہتا ہے

    بیاج میں کھیت نہ زیور نہ وہ دھن چاہتا ہے سود خور آج تو بیوہ کا بدن چاہتا ہے سوچ کر مجھ کو یہ اب نیند نہیں آتی ہے کھیلنے کے لیے بچہ مرا گن چاہتا ہے سانولا رنگ ہے خود اس کی بہن کا لیکن میرا بیٹا ہے کہ وہ گوری دلہن چاہتا ہے شاعری کے لیے کیا کیا نہیں چھوڑا ہم نے ساتھ دولت کے زمانہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    پھر بھنور میں ہے سفینہ اس لئے بے چین ہوں

    پھر بھنور میں ہے سفینہ اس لئے بے چین ہوں ہو گیا ضائع پسینہ اس لئے بے چین ہوں پھر ٹھٹھرتی رات میں فٹ پاتھ پر ہوگا غریب آ گیا پھر وہ مہینہ اس لئے بے چین ہوں پھر سنا ہے سرحدوں پر بڑھ گئیں سرگرمیاں پھر سے ہوگا چاک سینہ اس لئے بے چین ہوں سیکھ پایا ہی نہیں اب تک معافی کا ہنر ہے ابھی ...

    مزید پڑھیے