پھر بھنور میں ہے سفینہ اس لئے بے چین ہوں
پھر بھنور میں ہے سفینہ اس لئے بے چین ہوں
ہو گیا ضائع پسینہ اس لئے بے چین ہوں
پھر ٹھٹھرتی رات میں فٹ پاتھ پر ہوگا غریب
آ گیا پھر وہ مہینہ اس لئے بے چین ہوں
پھر سنا ہے سرحدوں پر بڑھ گئیں سرگرمیاں
پھر سے ہوگا چاک سینہ اس لئے بے چین ہوں
سیکھ پایا ہی نہیں اب تک معافی کا ہنر
ہے ابھی سینے میں کینہ اس لئے بے چین ہوں
کنکروں کو جڑ لیا لوگوں نے سرکے تاج میں
ٹھوکروں میں ہے نگینہ اس لئے بے چین ہوں
آ گئے ہیں لوٹ کر سب چوم کر مٹی ریاضؔ
میں نہ جا پایا مدینہ اس لئے بے چین ہوں