کسے غرض ہے کہ اب دھوپ سے بچائے مجھے

کسے غرض ہے کہ اب دھوپ سے بچائے مجھے
ہر ایک موڑ پہ بابو جی یاد آئے مجھے


یہ کون لوگ ہیں جو رکھ دئے بدن گروی
یہ کون لوگ ہیں لگتے ہیں اپنے سائے مجھے


اب اس کے آگے بنا راستوں کے جانا ہے
اب اس کے آگے کوئی راستہ بتائے مجھے


مجھے سلگتے ہوئے ہو گئی ہے اک مدت
کہیں سے کوئی ہوا آئے اور جلائے مجھے


اسی نے مجھ کو لکھا تھا خود اپنے دامن پر
کچھ اور لکھنا ہے اس کو تو پھر مٹائے مجھے