بیاج میں کھیت نہ زیور نہ وہ دھن چاہتا ہے

بیاج میں کھیت نہ زیور نہ وہ دھن چاہتا ہے
سود خور آج تو بیوہ کا بدن چاہتا ہے


سوچ کر مجھ کو یہ اب نیند نہیں آتی ہے
کھیلنے کے لیے بچہ مرا گن چاہتا ہے


سانولا رنگ ہے خود اس کی بہن کا لیکن
میرا بیٹا ہے کہ وہ گوری دلہن چاہتا ہے


شاعری کے لیے کیا کیا نہیں چھوڑا ہم نے
ساتھ دولت کے زمانہ ہے کہ فن چاہتا ہے


گاؤں کا بوڑھا وہ اب جس کا نہیں ہے کوئی
اپنے گھر بار کے بدلے میں کفن چاہتا ہے