کچھ زیادہ ہی اگر رخت سفر رہتا ہے

کچھ زیادہ ہی اگر رخت سفر رہتا ہے
ہر گھڑی راہ میں مشکل میں بشر رہتا ہے


اس لئے آپ کو پانے سے میں کرتا ہوں گریز
قیمتی چیز کے کھو جانے کا ڈر رہتا ہے


اس کی سانسوں سے مہکتی ہیں کئی دن سانسیں
اس کو چھونے کا کئی روز اثر رہتا ہے


کیسا جادو ہے کھلی آنکھوں سے دکھتا ہی نہیں
بند کرتا ہوں تو وہ زیر نظر رہتا ہے


بن ترے میری حقیقت تو ہے سونی لیکن
شادماں تجھ سے خیالوں کا نگر رہتا ہے


لال قلعہ میں کوئی سجتی ہے جب بھی محفل
ایسا لگتا ہے یہاں اب بھی ظفرؔ رہتا ہے


اب گزر جاتی ہے اوپر سے پرندوں کی قطار
نیچے مایوس کھڑا سوکھا شجر رہتا ہے