اجنبی تھا وہ جس کو کھویا تھا
اجنبی تھا وہ جس کو کھویا تھا
پھر بھی میں ساری رات رویا تھا
عمر بھر دور ہو نہ پائی تھکن
میں نے پلکوں پہ اشک ڈھویا تھا
ہو گئی ہے زمیں وہ اب بنجر
جس جگہ اک فقیر رویا تھا
داغ پانی کے لگ گئے تھے کئی
میں نے ان کو لہو سے دھویا تھا
لہریں روئیں لپٹ لپٹ کے بہت
مجھ کو دریا نے جب ڈبویا تھا