آر پی شوخ کی غزل

    نقش دیوار شکستہ ہی کہیں ہو مجھ میں

    نقش دیوار شکستہ ہی کہیں ہو مجھ میں درد ہو یاد ہو کوئی تو مکیں ہو مجھ میں اک جزیرہ ہوں تہ خون تمنا کب سے پاؤں رکھنے کے لیے کچھ تو زمیں ہو مجھ میں خون باقی ہے تو پھر زخم سے باہر آئے رنگ دکھلائے جو اک بوند یقیں ہو مجھ میں میں ترے غم کی امانت کو سنبھالے رکھوں سانس کوئی تو مگر میرا ...

    مزید پڑھیے

    آگے تم ہو تو جفاؤں کا قلق یاد نہیں

    آگے تم ہو تو جفاؤں کا قلق یاد نہیں دل وہ بچہ ہے جسے پہلا سبق یاد نہیں کیا بتائیں کہ تھی کیا صبح ازل وہ صورت اس کڑی دھوپ میں عارض کی شفق یاد نہیں جانے کس گام کھلیں اس کے تبسم کے رموز آ چکے کتنے ہی نیرنگ افق یاد نہیں عمر رفتہ میں ترا نام بھی لکھا تھا کہیں لے گیا کون اڑا کر وہ ورق ...

    مزید پڑھیے

    کس پہ قربان کسے یاد ہوئے تھے ہم بھی

    کس پہ قربان کسے یاد ہوئے تھے ہم بھی یاد اتنا ہے کہ برباد ہوئے تھے ہم بھی ان دنوں بھی تھے کہاں معنی و الفاظ بہم لب خاموش سے ارشاد ہوئے تھے ہم بھی اب تو دیوار پہ لکھے ہیں کئی نام نئے اس حسیں شہر کی روداد ہوئے تھے ہم بھی تھا وہاں پیڑ نہ پانی نہ پرندہ کوئی کس جلے دشت میں آباد ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    کٹ گئے ہم تو حبیبوں سے اجازت لے کر

    کٹ گئے ہم تو حبیبوں سے اجازت لے کر ہم سے ملتا ہے رقیبوں سے اجازت لے کر نہیں چارہ تو ہے تہذیب اسی میں اے جاں آج مر جائیں طبیبوں سے اجازت لے کر ہم تو مرتے رہے شمشاد قدوں پر اکثر کیا جئیں آج صلیبوں سے اجازت لے کر تم نے پوچھا تو عنایت ہے تمہاری ورنہ کون جاتا ہے غریبوں سے اجازت لے ...

    مزید پڑھیے

    اس نے پوچھا تو فقط درد کا افسانہ کھلا

    اس نے پوچھا تو فقط درد کا افسانہ کھلا کسی صورت بھی نہ راز دل دیوانہ کھلا ہر نفس پائے جنوں کے لیے زنجیر گراں کو بہ کو پھرتا رہا پھر دل دیوانہ کھلا جل کے مرتے ہیں پہ اظہار کے شعلوں میں نہیں حادثوں یوں بھی ہوا شمع سے پروانہ کھلا ہجر کی رات ڈھلی صبح کے ساغر میں مگر نیند آئی نہ تری ...

    مزید پڑھیے

    گلوں کو چوم کر آئی صبا سی لگتی تھی

    گلوں کو چوم کر آئی صبا سی لگتی تھی تھی اک نظر پہ معطر ہوا سی لگتی تھی میں زخم زخم تھا لیکن گلاب ہاتھوں میں بڑی تھی چوٹ تو لیکن ذرا سی لگتی تھی وہ ترش گو لب جاں بخش بھی تھا کیا کہئے کہ تلخ بات بھی اس کی دوا سی لگتی تھی ستم کو حسن ستم کر گیا وہی ورنہ یہی تھی زندگی لیکن سزا سی لگتی ...

    مزید پڑھیے

    یہ اتفاق تھا میں اس کا ہم زمانہ تھا

    یہ اتفاق تھا میں اس کا ہم زمانہ تھا جو زندگی سے تعارف تھا غائبانہ تھا کہیں ملے تو کبھی عمر رفتہ سے پوچھوں کہاں ہے آج ترا جس سے دوستانہ تھا بنا کے اب مجھے ایندھن جلائے جاتا ہے یہی تھی شاخ کبھی جس پہ آشیانہ تھا کبھی جو زعم ہوا وقت رہ گیا پیچھے نظر اٹھائی تو دیکھا وہی زمانہ ...

    مزید پڑھیے

    پوچھو گے تو کھل جائے گی زخموں کی زباں اور

    پوچھو گے تو کھل جائے گی زخموں کی زباں اور پرشش تو گزرتی ہے غم دل پہ گراں اور منظور جلانا ہے تو اک بار جلا دو یوں دل کے سلگنے سے تو اٹھتا ہے دھواں اور خاموشی نے رسوائی کے گل اور کھلائے دفنایا محبت کو تو ابھرے ہیں نشاں اور اس جیسا زمانے میں کوئی ایک تو ہوتا اس در سے اٹھیں اٹھ کے ...

    مزید پڑھیے

    جسم کا گھر ہی گرا ہے تو نہ جاں ٹھہرے گی

    جسم کا گھر ہی گرا ہے تو نہ جاں ٹھہرے گی یاد آئی بھی کسی کی تو کہاں ٹھہرے گی تھک کے بیٹھا ہوں مگر زندگی بھاگی جائے میں چلا جاؤں گا تو عمر رواں ٹھہرے گی اس کے در سے جو اٹھے شہر سے پھر کیا مطلب کسی صحرا میں ہی اب نقل مکاں ٹھہرے گی بھول کر بھی نہ بھلانا اسے اے دل ورنہ یہ سبک دوشی بھی ...

    مزید پڑھیے

    کوہ کن شب تھے رہا شغل سحر ہونے تک

    کوہ کن شب تھے رہا شغل سحر ہونے تک سر پٹکنا اسی دیوار میں در ہونے تک اس کی عادت تھی مرے خون کو پانی کرنا رنگ کیا کیا نہ اڑا آنکھ کے تر ہونے تک اب دوا ہے نہ دعا ہے نہ مسیحا گویا ہر خدائی تھی مرا خون جگر ہونے تک عمر بھر پھر سے جدائی کو محبت کہنا دیکھنا بھی ہے زمانے کی نظر ہونے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3