کس پہ قربان کسے یاد ہوئے تھے ہم بھی

کس پہ قربان کسے یاد ہوئے تھے ہم بھی
یاد اتنا ہے کہ برباد ہوئے تھے ہم بھی


ان دنوں بھی تھے کہاں معنی و الفاظ بہم
لب خاموش سے ارشاد ہوئے تھے ہم بھی


اب تو دیوار پہ لکھے ہیں کئی نام نئے
اس حسیں شہر کی روداد ہوئے تھے ہم بھی


تھا وہاں پیڑ نہ پانی نہ پرندہ کوئی
کس جلے دشت میں آباد ہوئے تھے ہم بھی


ہم نہیں ایسے کہ اب جشن منائیں جھوٹے
اول اول تو بہت شاد ہوئے تھے ہم بھی


لے گئے سارے پر و بال اڑا کر کرگس
یاد آتا ہے کہ آزاد ہوئے تھے ہم بھی