آگے تم ہو تو جفاؤں کا قلق یاد نہیں
آگے تم ہو تو جفاؤں کا قلق یاد نہیں
دل وہ بچہ ہے جسے پہلا سبق یاد نہیں
کیا بتائیں کہ تھی کیا صبح ازل وہ صورت
اس کڑی دھوپ میں عارض کی شفق یاد نہیں
جانے کس گام کھلیں اس کے تبسم کے رموز
آ چکے کتنے ہی نیرنگ افق یاد نہیں
عمر رفتہ میں ترا نام بھی لکھا تھا کہیں
لے گیا کون اڑا کر وہ ورق یاد نہیں
جبر دنیا میں وہ کالج کا زمانہ بھولا
تھے کتابوں میں لکھے کون سے حق یاد نہیں
جنگ سے مسئلے حل کرنے چلے ہو لوگو
تمہیں تاریخ کا ایک ایک سبق یاد نہیں