جسم کا گھر ہی گرا ہے تو نہ جاں ٹھہرے گی

جسم کا گھر ہی گرا ہے تو نہ جاں ٹھہرے گی
یاد آئی بھی کسی کی تو کہاں ٹھہرے گی


تھک کے بیٹھا ہوں مگر زندگی بھاگی جائے
میں چلا جاؤں گا تو عمر رواں ٹھہرے گی


اس کے در سے جو اٹھے شہر سے پھر کیا مطلب
کسی صحرا میں ہی اب نقل مکاں ٹھہرے گی


بھول کر بھی نہ بھلانا اسے اے دل ورنہ
یہ سبک دوشی بھی اک بار گراں ٹھہرے گی


خود پہ ہر رت کو گزرتے ہوئے دیکھا تھا مگر
کیا خبر تھی کہ یہیں ایک خزاں ٹھہرے گی