اس نے پوچھا تو فقط درد کا افسانہ کھلا
اس نے پوچھا تو فقط درد کا افسانہ کھلا
کسی صورت بھی نہ راز دل دیوانہ کھلا
ہر نفس پائے جنوں کے لیے زنجیر گراں
کو بہ کو پھرتا رہا پھر دل دیوانہ کھلا
جل کے مرتے ہیں پہ اظہار کے شعلوں میں نہیں
حادثوں یوں بھی ہوا شمع سے پروانہ کھلا
ہجر کی رات ڈھلی صبح کے ساغر میں مگر
نیند آئی نہ تری دید کا مے خانہ کھلا