پوچھو گے تو کھل جائے گی زخموں کی زباں اور

پوچھو گے تو کھل جائے گی زخموں کی زباں اور
پرشش تو گزرتی ہے غم دل پہ گراں اور


منظور جلانا ہے تو اک بار جلا دو
یوں دل کے سلگنے سے تو اٹھتا ہے دھواں اور


خاموشی نے رسوائی کے گل اور کھلائے
دفنایا محبت کو تو ابھرے ہیں نشاں اور


اس جیسا زمانے میں کوئی ایک تو ہوتا
اس در سے اٹھیں اٹھ کے مگر جائیں کہاں اور


چومے گا ترے پاؤں کو خود مرکز امید
ہاں رقص میں آ رقص میں آ عمر رواں اور


تا عمر سنا کیجئے اب نغمۂ خاموش
کہتے نہ تھے نازک ہے نہ چھیڑو رگ جاں اور